Can a husband bathe his wife? Kia Shohar Apni Bivi Ko Gusal De Sakta Hai?
Question: Can a husband give bath to his deceased wife or not? In the same way, can a wife give her husband a bath? (Nasir Latif, Islamabad)
Answer: It is permissible for all scholars to give a bath to her husband, Allama Nizam-ud-Din (may Allaah have mercy on him) wrote: Translation: "A woman can give her husband a bath, if any before or after death. It is not permissible for her to marry, such as: touching or kissing her husband's son or father with sex, even if such a thing has happened after death, it is not permissible for a woman to bathe her husband. But do not bathe a woman even in a state like the one in Siraj-ul-Hajj, (Fatwa al-Wamagiri, vol. 1).
Marriage remains at the time of death of the husband until the death of the adhikat, which is why the woman can give her husband a bath and the husband becomes like a stranger upon the death of the woman. He writes: "The marital giving of bathing (for the husband to the deceased) of the husband is for the benefit of the marriage, so as long as the marriage is pending, the marriage will remain and the marriage will remain until the end of the marriage." On the contrary, when a woman dies, the husband cannot give her a bath, because the marital property ends and the husband will become a foreigner because of the absence of marriage, so it is not permissible for him to give her a bath. (Al-Bayt al-Sunayee, vol. 1).
After the husband's death, the wife can see her husband, and he is allowed to give bath baths, even though the husband can see only his mouth. Handwashing and bathing are not permitted, Tanveer al-Basar with al-Mulkhtar says: "Husband will be prohibited from bathing and touching his wife, will not be prohibited from seeing," Al-Sayyid-ud-Din Kasghri quoted above. This is the correct view. All three Imams are justified in saying that the husband can give a bath to his wife; their argument for justification is that of Hazrat Ali. Our argument is that this is a rush of marriage
The following is important for the rest because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: On the Day of Judgment, every cause and lineage will disappear, but my cause and lineage will remain, while some of the Companions of the Prophet disliked it. (Margin Ibn Abidin Shami, vol: 5) "In this rate Allama Ibn Abidin Shami writes:" Sayyidah Fatima al-Zahra was given a bath by her brother Umm Ayman, so the tradition of giving the bath of Hazrat Ali. It will be calculated on the whole of the equipment
They did the preparations, and usually the bath was given by the Ummah (it may have been explained to them by the method of bathing), and even if it was proved that the bath was given by Ali himself, this would be attributed to Hazrat Ali. The reason is that when Abdullah bin Masood objected to them, he replied: Do you not know the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him): "Indeed, Fatima is your wife in this world and in the Hereafter", so their claim of specialty It is argued that the true religion of the Companions is that a husband cannot bathe his wife's body. Ali's justification for bathing Fatimah is based on the hadeeth: "Every cause and lineage (with death) is disconnected, except for my cause and lineage (Tabrani Kabir)."
In the lineage and reason, Allama Ibn Abidin Shami writes: "Reason is due to kinship, whether it is from breastfeeding or from in-laws, and by lineage it is relative because if Islam and piety are meant for cause. There is no disconnection and Umar Farooq married the Ummah Kulsoom bint Ali to establish a pure relationship with the Holy Prophet. It is a question of Allaah: therefore the lineage does not exist between them. (Surah Al-Mumunun: 101), this refers to the lineage of those other than the Messenger of Allah, who are not profitable in the world and the Hereafter. Me, I: 5).
کیا شوہر بیوی کی میّت کو غسل دے سکتا ہے؟
سوال: خاوند اپنی فوت ہونے والی بیوی کو غسل دے سکتاہے یا نہیں ؟،اسی طرح بیوی اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے ؟ (ناصر لطیف، اسلام آباد)
جواب: عورت کا اپنے شوہر کو غسل دینا تو تمام اہلِ علم کے ہاں مُتّفَق علیہ ہے، علامہ نظام الدین رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے جب کہ موت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا امر واقع نہ ہوا ہو جس سے اُس کے نکاح سے نکل جائے، مثلاً: شوہر کے لڑکے یا باپ کو شہوت کے ساتھ چھوا یا بوسہ لیا، اگرچہ موت کے بعد ایسا کوئی امر واقع ہوا ہو تو بھی عورت کا شوہر کو غسل دینا جائز نہیں لیکن مردکسی حالت میں بھی عورت کو غسل نہ دے جیساکہ ’’سراج الوہاج ‘‘ میں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری، جلد1)‘‘۔
شوہر کے انتقال کے وقت چونکہ عدّت وفات پوری ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے، اسی وجہ سے عورت اپنے شوہر کو غسل وکفن دے سکتی ہے اور عورت کے انتقال پر شوہر مثل اجنبی کے ہو جاتا ہے، علامہ علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی لکھتے ہیں: ’’ (شوہر کے لیے عورت کی میت کو )غسل دینے کی اباحت نکاح سے مستفاد ہے تو جب تک نکاح باقی ہے ،یہ اباحت باقی رہے گی اور عدت ختم ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے۔ اس کے برخلاف جب عورت فوت ہوجائے تو شوہر اُسے غسل نہیں دے سکتا کیونکہ نکاح کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور محلِ نکاح نہ ہونے کے سبب خاوند اجنبی ہو جائے گا، پس اس کا عورت کو غسل دینا جائز نہیں ہے۔ (البدائع الصنائع ،جلد 1)‘‘۔
شوہر کے انتقال کے بعد بیوی اپنے خاوند کو دیکھ سکتی ہے، غسل وکفن دینے کی بھی اس کو شرعاً اجازت ہے، البتہ شوہر بیوی کا صرف منہ دیکھ سکتا ہے۔ ہاتھ لگانے اور غسل وکفن کی اجازت نہیں، تنویر الابصار مع الدرالمختار میں ہے : ’’ بیوی کو غسل دینے اور اسے چھونے سے شوہر کو منع کیاجائے گا ، دیکھنے سے منع نہیں کیاجائے گا ،’’مُنْیَۃالْمُصَلّی‘‘ علامہ سدیدالدین کاشغری کے حوالے سے یہ صحیح ترین قول ہے ۔تینوں اَئِمّہ جائز قراردیتے ہیں کہ شوہر بیوی کو غسل دے سکتاہے ، جواز کے لیے ان کی دلیل حضرت علیؓ کا عمل ہے ۔ ہماری (اَحناف)کی دلیل یہ ہے کہ یہ زوجیت کا رش
تہ باقی رہنے پر محمول ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ہر سبب اور نسب ختم ہوجائے گا ،مگر میرا سبب اور نسب باقی رہے گا ، جبکہ بعض اصحابِ رسول ﷺ نے اسے ناپسند کیاتھا ’’شَرْحُ الْمَجْمَعَ لِلْعَیْنِی ‘‘، (حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد :5)‘‘۔اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓکو ان کی دائی اُمّ ایمن ؓ نے غسل دیاتھا ،پس حضرت علی ؓ کے غسل دینے کی روایت کو اس پر محمول کیاجائے گا کہ پورے سازوسامان کی
تیاری تو انہوں نے کی اورعملاً غسل اُمّ ایمن نے دیا (ہوسکتاہے کہ غسل کا طریقہ اُنہوں نے بتایا ہو) اوراگر یہ روایت ثابت بھی ہو جائے کہ حضرت علیؓ نے خود ہی غسل دیا تھا تواسے حضرت علیؓ کی خصوصیت پر محمول کیا جائے گا ،یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اُن پر اعتراض کیا توانہوں نے جواب میں کہا: کیاتمہیں رسول اللہ ﷺ کایہ فرمان معلوم نہیں ہے:’’بے شک فاطمہؓ دنیا اور آخرت میں تمہاری بیوی ہے‘‘،پس ان کا خصوصیت کا دعویٰ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ ؓکے نزدیک اصل مذہب یہی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا ، علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں: حضرت علی ؓ کا حضرت فاطمہؓ کو غسل دینے کا جواز اس حدیث پر محمول ہے: ’’ہر سبب اور نسب (موت کے ساتھ) منقطع ہوجاتاہے ، سوائے میرے سبب اور نسب کے (طبرانی کبیر )‘‘۔
نسب اور سبب کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’ سبب سے مراد قرابتِ سببی ہے ،خواہ رضاعت کی نسبت سے ہو یا سسرالی نسبت سے اور نسب سے مراد قرابتِ نسبی ہے ،کیونکہ اگر سبب سے اسلام اور تقویٰ مرادلیا جائے تووہ کسی سے منقطع نہیں ہوتا اوررسالت مآب ﷺ کی ذات پاک سے سببی رشتہ قائم کرنے کے لیے حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت اُمّ کلثوم بنت علی ؓسے نکاح کیا تھا ،رہا یہ سوال کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس ان کے درمیان نسب قائم نہیں رہیں گے ،(سورۃ المومنون:101)،تو اس سے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ دوسروں کے نسب مراد ہیں جو دنیا اورآخرت میں نافع نہیں ہیں ،(حاشیہ ابن عابدین شامی ،جلد :5)‘‘۔
0 Comments